تحریر: سیدہ توصیف زہراء نقوی
حوزہ نیوز ایجنسی| گزشتہ چند دہائیوں سے اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والے بڑے جوش و جذبے اور والہانہ محبت کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے پیدل چل کر جا رہے ہیں اور بظاہر دو دہائیوں سے عالم انسانیت کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے والی اس پیادہ روی کی تاریخ صرف ان چند سالوں پر محیط نہیں بلکہ اہل بیت علیہم السلام کی زیارت ان کے چاہنے والے، خود آئمہ علیہم السلام کے دور ہی سے انجام دیتے رہے ہیں، بالخصوص امام حسین علیہ السلام کی زیارت جس کی تاکید تمام آئمہ اطہار علیہم السلام نے کی ہے۔ کتب احادیثی میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت اور اس کی اہمیت سے متعلق بہت سی احادیث موجود ہیں۔ بطور مثال کامل الزیارت کی یہ حدیث زائر امام حسین کے اجر و ثواب کو بیان کر رہی ہے۔
عن عبد الله بن زرارة قال سمعت ابا عبد الله (ع) يقول إن الزوار الحسين بن على (ع) يوم القيامة فضلا عَلَى النَّاسِ قُلْتُ وَ ما فَضْلُهُمْ قَالَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ النَّاسِ بِأَربعين عاماً وَ سَائِرُالناس في الحساب و الموقف. (کامل الزیارت باب 53 ،حدیث 1)
عبدالله بن زرارہ کہتے ہیں کہ: میں نے امام صادق علیہ السلام کو فرماتے سنا " بیشک روز قیامت حسين بن علي عليهما السلام کے زائروں کو تمام لوگوں پر فضیلت و برتری حاصل ہوگی میں نے عرض کی ان کی کیا فضیلت ہے ، امام علیہ السلام نے فرمایا سارے لوگوں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے جبکہ تمام لوگ حساب و کتاب کے لئے کھڑے ہوں گے "
شیخ مفید علیہ الرحمہ نے امام حسن عسکری علیہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے:
روي عن أبي محمد الحسن بن علي العسكري عليهما السلام أنه قال: علامات المؤمن خمس: صلاة الاحدى والخمسين، وزيارة الاربعين، والتختم في اليمين، وتعفير الجبين، والجهر ببسم الله الرحمن الرحيم۔( المزار،باب فضل زيارة الاربعين،حدیث1) امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: مومن کی پانچ نشانیاں ہیں دن اور رات میں 51 رکعت نماز پڑھنا، زیارت اربعین، دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، خاک پر سجدہ کرنا، بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا۔
سب سے پہلے قبر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا شرف صحابی رسول خدا حضرت جابر ابن عبداللہ الانصاری کو حاصل ہوا جنہوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کی زیارت کی۔ اس حالت میں کہ وہ پیدل تھے اور گریہ اور غم کی شدت سے کئی مرتبہ بے ہوش ہوئے۔
موجودہ دور میں صدام کی حکومت کے خاتمے کے بعد رواج پانے والی اس پیادہ روی کی بنیاد رکھنے والے مرحوم شیخ انصاری علیہ الرحمہ ہیں، جن کی وفات 1281 ہجری قمری میں ہوئی انہوں نے زیارت امام حسین علیہ السلام کے لیے قافلے کی صورت میں جانے کا رواج ڈالا۔ کافی عرصے تک یہ رواج قائم رہا۔ لیکن آہستہ آہستہ حکومتوں کے دباؤ کے باعث یہ رواج فراموشی کی نذر ہوتا گیا۔ لیکن زیارت امام حسین علیہ السلام کے لیے جانے والوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی۔
زیارت کے لیے قافلے کی صورت میں پیدل جل کر جانے کی یہ رسم محدث دوری نے دوبارہ شروع کی۔ یہ بزرگ عالم دین عید قربان پر زیارت امام حسین کے لیے نجف سے کربلا پیدل چل کر گئے تین دن راہ میں گزارے۔ ان کے دوستوں اور جاننے والوں میں سے تقریبا 30 افراد ہمراہ تھے۔اس کے بعد محدث نوری نے یہ فیصلہ کیا کہ ہر سال اس عمل کو دہرائیں گے۔ وہ اخری بار سال 1319 ہجری میں پیدل چل کر حرم ابا عبداللہ علیہ السلام کی زیارت کے لیے گئے۔ دیگر بہت سے علماء اور مراجعین نے ان کے اس عمل کی پیروی کی۔
بعثی قبیلے کی عراق میں حکومت پر قبضے اور اسلام کے منافی اقدامات کی بنا پر ایت اللہ العظمی سید حکیم نے بعثیوں کو اسلام سے خارج قرار دیا۔ یہ بات وجہ بنی کہ شیعوں کے لیے حکومت کی جانب سے سختی میں شدت پیدا ہو گئی۔ بعثی حکومت نے قوم پرستی اور عرب پرستی کو فروغ دیا۔ نیز ان کی سیاست قتل و غارت اور ظلم و ستم پر مبنی ہونے کی وجہ سے عراق میں ناامنی بہت زیادہ ہو گئی۔ صدام حسین بھی مختلف بہانوں سے شیعوں کو ختم کرنے اور انہیں قتل کرنے کے درپے رہتا تھا نیز عراق، ایران جنگ نے بھی پیادہ روی کے اس سلسلے کو تقریبا ختم ہی کر دیا تھا۔ البتہ لوگ حکومتی سپاہیوں کی نظروں سے بچتے ہوئے مخفی راستوں سے ہوتے ہوئے گاؤں، دیہاتوں اور نخلستانوں میں چھپتے چھپاتے ہوئے کربلا کی سمت جاتے۔ اگر کسی ذریعے سے حکومتی اداروں تک یہ خبر پہنچتی تو زائرین کو راستے ہی میں قتل کر دیتے تھے۔ اگرچہ صدام کی حکومت کے دوران تقریبا 30 سال تک اربعین کی یہ پیادہ روی رسمی طور پر برگزار نہ ہو سکی لیکن اس دور میں بھی ایسے شیعہ افراد موجود رہے جو اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے جاتے رہے۔
بعثی حکومت کے خاتمے اور صدام کو پھانسی دیے جانے کے بعد اگرچہ عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی، القاعدہ کی دہشت گردی اور بعثی افراد کی شیعہ دشمنی موجود تھی لیکن اس کے باوجود امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی یہ سنت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوئی۔ اس مرتبہ عام شیعہ افراد اس سفر میں شامل تھے۔ یہ شیعہ کسی ایک ملک سے تعلق رکھنے والے نہیں تھے بلکہ عراق، ایران، لبنان، قطیف، پاکستان، افغانستان، یورپ، امریکہ اور دوسرے بہت سے ممالک سے انے والے افراد تھے۔
سید الشہداء کی زیارت کا یہ رواج وہابی الفکر افراد کے لیے قابل قبول نہ تھا ۔ نیز شیعوں کی قدرت سے ڈرنےوالی حکومتیں بھی ان کی پشت پناہی کر رہی تھیں۔ لہذا کئی مرتبہ شیعہ مراکز پر حملے ہوئے، مساجد میں شیعوں کو قتل کیا گیا، سامرہ میں امام حسن عسکری علیہ السلام کے حرم مبارک میں بم بلاسٹ کیا گیا۔ جلوس عزاداری پر حملہ بھی ہوا لیکن امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا یہ رواج بڑھتا ہی چلا گیا اور اج دنیا کے تقریبا تمام ممالک سے انے والے زائرینِ امام حسین علیہ السلام کی تعداد کئی کروڑ افراد تک پہنچ چکی ہے اور ہر سال اس تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ شیعہ علماء اور مراجعین نے اس پیادہ روی کو ظہور امام زمانہ علیہ السلام کا پیش خیمہ قرار دیا ہے۔ علماء کا کہنا ہے کہ یہ مقدس جلوس اہل بیت علیہم السلام کی جانب توجہ اور ان سے توسل کا بہترین موقع ہے۔ یہ موقع ہے سوچنے اور فکر کرنے کا کہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے کس طرح حق کے لئے قیام کیا ۔ امام حسین علیہ السلام کا جو ہدف تھا وہی ہر مومن انسان کا ہدف ہونا چاہیے۔ خداوند عالم سے دعا ہے کہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اس ہدف کی راہ میں ثابت قدم رہیں۔ خدا ظہور امام زمانہ میں تعجیل فرمائے۔